Maulana Jalaluddin Rumi (6 Complete Books)
(Please click a book name/link to visit)
|
تعارف حضرت مولانا جلال الدین رومی Introduction to Molana Rumi R.A
- کتاب کا صفحہ اول
- دیباچہ سوانح مولانا رومؒ
- نام و نسب، ولادت و تعلیم و تربیت حصہ اول
- نام و نسب، ولادت و تعلیم و تربیت حصہ دوم
- نام و نسب، ولادت و تعلیم و تربیت حصہ سوم
- نام و نسب، ولادت ، تعلیم و تربیت حصہ چہارم
- اخلاق و عادات مولانا رومیؒ
- تعارف تصنیفات
مولانا رومؒ کا خاندانی نام محمد تھا۔ جلال الدین لقب اور عرفیت مولائے روم۔ آپ 604ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ مولانا رومؒ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تک براہ راست پہنچتا ہے۔ مولانا رومؒ کے پردادا حضرت حسین بلخیؒ بہت بڑے صوفی اور صاحبِ کمال بزرگ تھے۔ امرائے وقت ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خوارزم شاہ جیسے با جبروت حکمران نے اپنی بیٹی کی شادی مولانا رومؒ کے دادا سے کر دی تھی۔ علم و فضل کے ساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔
مولانا جلال الدین رومیؒ کے والد کا نام شیخ بہاء الدین تھا۔ ان کے مریدوں میں سید برہان الدین ایک نامور عالم تھے۔ اس لئے مولانا رومؒ کی تربیت کی ذمہ داری سید برہان الدین کے سپرد کی گئی۔ مولانا رومؒ نے اکثر ظاہری علوم ان ہی بزرگ سے حاصل کئے۔ تقریباً انیس سال کی عمر میں مولانا رومؒ اپنے والدِ محترم کے ساتھ قونیہ تشریف لے آئے۔ کچھ دن بعد آپ سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ شفیق و مہربان باپ سے جدائی ایک بڑا جانگداز سانحہ تھا مگر اللہ نے مولانا رومؒ کو صبر و ضبط کا حوصلہ عطا فرمایا۔ آپ نے اس غم سے نجات کے لئے خود کو کتابوں میں گم کر دیا پھر 629ھ میں جب مولانا رومؒ کی عمر پچیس سال تھی، آپؒ نے مزید تحصیلِ علم کے لئے شام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہے اور مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ پھر قونیہ واپس آ گئے۔ ان ہی دنوں آپ کے استادِ معظم سید برہان الدین بھی تشریف لے آئے۔
پھر مولانا رومؒ کا امتحان لیا گیا۔ جب سید صاحب کو یقین ہو گیا کہ ان کا شاگرد ظاہری علوم کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر ایک دن فرمایا۔
"مخدوم زادے! اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارے والد کی امانت تمہیں لوٹا دوں۔" اس کے بعد سید برہان الدینؒ نے آپ کو اپنا مرید کیا اور تقریباً نو سال تک روحانی تعلیم دیتے رہے۔ سید برہان الدین ایک با ہوش بزرگ اور بیاعدی طور پر ایک عالم و فاضل شخص تھے۔ اس لئے طویل تربیت کے بعد بھی مولانا رومؒ کی زندگی پر عقل کا رنگ غالب رہا۔ دراصل سید صاحب یہی چاہتے تھے اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے تھے۔